Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

یہ موسم سبز پتوں کا

سنہری دھوپ کرنوں کا

گلابوں کے مہکنے کا

ہمیں کب راس آیا ہے

ہماری زرد آنکھوں نے بنجر خواب ہی دیکھے

کہ اپنی خواب ہستی میں

عتاب آلود بستی میں

کوئی خوشبو نہ آنچل ہے

کوئی جھونکا نہ بادل ہے

ان کا ٹکراؤ بے ساختہ ہوا تھا وہ شاپنگ سنٹر کے گیٹ سے باہر نکل رہی تھیں اور فیاض اندر داخل ہو رہے تھے دونوں کے ہاتھوں میں سیل فون تھا جو کان سے لگائے گفتگو کرتے ہوئے جا رہے تھے  دونوں نے کچھ غصے بھرے انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا اور پھر ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رہ گئے تھے کئی ساعتیں  کئی لمحے اس حیرانی کی نذر ہو گئے تھے۔

”ایم سوری!“ فیاض کو وہاں سے گزرتے لوگوں کے مسکراتے چہروں کا احساس ہوا تو وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولے۔
(جاری ہے)

”آپ کو دیکھ کر چلنا ابھی تک نہیں آیا؟“ مثنیٰ بھی حال میں پلٹتے ہوئے طنزیہ انداز میں گویا ہوئیں۔

”جب وقت تھا تب آنکھیں ساتھ نہیں دیتی تھیں اب تو بوڑھا ہو گیا ہوں اور اس عمر میں تو سچ مچ آنکھیں کمزور ہو جاتی ہیں۔
“ ان کی شگفتگی میں ایک حزن تھا۔

”پہلی فرصت میں آپ کو آنکھیں ٹیسٹ کرانی چاہئیں۔“ وہ کہہ کر پرس سنبھالتی آگے بڑھ گئی تھیں۔

”مثنیٰ پیز…“ ان کے انداز میں التجا تھی۔

”آپ مجھے اس طرح پکارنے کا حق کھو چکے ہیں۔“

”جانتا ہوں لیکن…“ شدید بے بسی و اضطراب تھا ان کے انداز میں مثنیٰ رک گئی تھیں  دونوں کے چہروں پر اذیت تھی پرائی یادوں کی فیاض ان سے چند قدم دور رک کر گویا ہوئے۔

”میرے ساتھ ایک کپ کافی پی سکتی ہیں؟“

”کس رشتے سے فیاض صاحب! میں آپ کے ساتھ کافی پیوں؟“

”پلیز مثنیٰ! میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اب تم کبھی میرے سامنے نہیں آؤ  میرے زخم ہرے ہو جائیں گے۔ میرا ضبط تڑپ میں بدل جائے گا اور میں مر جاؤں گا۔“ اردگرد سے بے نیاز وہ بولے جا رہے تھے ان کی حالت ایسی تھی جیسے صحرا میں بھٹکنے والے کسی پیاسے کو یکلخت ٹھنڈے پانی کا چشمہ مل جائے اور وہ اپنی تمام صعوبتوں و تکلیفوں کو بھلا کر اس کی جستجو میں مگن ہو جاتا ہے۔

مجبوراً مثنیٰ کو ان کے ساتھ قریبی ریسٹورنٹ میں آنا پڑا تھا اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی فیاض اس کی مقابل والی چیئر چھوڑ کر دوسری چیئر پر بیٹھے تھے ان کا چہرہ جھکا ہوا تھا جس پر تکلیف کے رنگ نمایاں تھے۔

”ہٹ دھرمی کی عادت ابھی بھی موجود ہے  مجھے یہاں لاکر کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں آپ؟“

”میری نیت پر شک مت کرو  بہت چاہا  بے حد کوشش کی میں نے تمہیں بھلانے کی ہر جتن  ہر حربہ آزما ڈالا مگر تمہاری یاد سے میں اب بھی دامن نہیں چھڑا پایا ہوں۔
تم موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے درمیان موجود رہتی ہو۔“ وہ چہرے جھکائے کہہ رہے تھے۔

”ہمارے درمیان؟“ وہ حیرانی سے گویا ہوئی تھیں۔

”جہاں تک میں سمجھ پائی ہوں آپ کے اور پری کے رشتے اتنے مضبوط تو نہیں ہیں کہ آپ کے اور اس کے درمیان میری باتیں ہوں اور نہ ہی دیگر کوئی ایسے لوگ ہوں گے جو میرا نام بھی سننا اس گھر میں گوارا کر سکیں۔
“ ان کے لہجے میں تلخی بھری سنجیدگی تھی۔

”پری نے میری کوئی شکایت کی ہے آپ سے؟“ وہ ویٹر کو ٹیبل کی جانب آتے دیکھ کر نارمل انداز میں بیٹھ گئے تھے  مثنیٰ سے پوچھتے وقت ان کے لہجے میں افسردگی تھی۔

”آپ نے کبھی کسی سے کوئی شکایت کی ہے؟ وہ بھی آپ کی ہی بیٹی ہے شکوہ و شکایت کرنا اس کے خون میں ہی شامل نہیں ہے تو وہ کیا شکایت کرتی آپ کی  میں نے یہ محسوس کیا ہے وہ جب بھی آپ کا ذکر کرتی ہے لہجے میں احترام ہوتا ہے  ایسی بے ساختگی و بے تکلفی نہیں ہوتی جو عموماً باپ و بیٹی کے رشتے میں ہوتی ہے۔
“ ویٹر آیا تو فیاض اس کو آرڈر لکھوانے لگے۔

”آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا…؟“ ویٹر کے جانے کے بعد وہ ان سے مخاطب ہوئی تھیں۔

”میرے اور صباحت کے درمیان تمہارا ذکر ہوتا ہے  میری آنکھوں میں موجود تمہارے ٹھہرے ہوئے عکس وہ پہچان جاتی ہے اور پھر ہمارے درمیان فاصلوں کی حائل خلیج وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے  نامعلوم میں تمہیں کبھی بھول پایا یا نہیں لیکن یہ صباحت کی بے وقوفی سمجھو یا اس کی بدقسمتی  وہ تمہیں شاید ہی کسی دن بھول پاتی ہے اس کے طعنوں میں اور باتوں میں تمہارا ذکر ہوتا ہے اور میری یادوں کے زخموں پر کبھی بھی بھول کے کھرنڈ نہیں آتے۔
“ ان کا لہجہ بھیگا بھیگا سا تھا۔ مثنیٰ کی آنکھوں کی سطح پر بھی نمی امڈنے لگی تھی جس پر لمحے بھر میں انہوں نے قابو پایا تھا۔

”یہ ٹھیک نہیں ہے  یہ آپ کی روش اچھی نہیں ہے جب آپ ایک عورت کو بیوی بنا کر لے آئے ہیں تو اب اس کو اس کا جائز حق دیں  وہ آپ کی بیوی ہے آپ کے بچوں کی ماں ہے وہ۔ آپ کے رویئے میں  آپ کی محبت میں نا آسودگی محسوس کرتی ہو گی  تب ہی وہ آپ کے گزرے کل کے آپ کو طعنے دیتی ہے۔
“ وہ کسی ہمدرد کی طرح ان کو سمجھا رہی تھیں۔

”یہ لہجے کا دھیما پن  یہ انداز کی نرمی و ہمدردی میں ان سب کا عادی ہوں۔ اماں کہتی ہیں گڑ نہ دو تو گڑ جیسی میٹھی بات ہی کرو۔ آہ… صباحت اس کے لہجے میں تو کڑواہٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے  وہ کبھی میرے اندر کے انسان کو سمجھ ہی نہ سکی ہے اور شاید سمجھنا بھی نہیں چاہتی ہے۔“

”وہ آپ سے کمپرومائز نہیں کر سکی ہے پھر تو اس نے پری کو بھی قبول نہیں کیا ہوگا؟ میری بیٹی کی تو کوئی ویلیو نہیں ہو گی وہاں۔
“ وہ خاصی مضطرب ہو گئی تھیں۔

”وہ میری بیٹی ہے کوئی ٹیڑھی آنکھ سے اس کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا پھر وہ اماں جان کی لاڈلی ہے۔“ ٹیبل کی چکنی سطح پر انگلی پھیرتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے۔

”تم بتاؤ خوش ہو؟ کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟“ موضوع بدلتے ہوئے انہوں نے آہستگی سے کہا۔

”نہیں  بے حد خوش ہوں  صفدر بہت اچھے ہیں  بہت محبت کرتے ہیں مجھ سے۔
اتنی محبت کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔“ پل بھر کو ان کے چہرے پر سرخی چھائی تھی۔

”گزری زندگی کا لمحہ مجھے یاد نہیں آتا صفدر نے میرا دامن اپنی چاہتوں سے اس طرح بھر دیا ہے کوئی تنگی  کوئی آرزو مجھے بے چین نہیں کرتی اور میں ان کے ساتھ بے حد ہوش ہوں۔“ وہ مطمئن لہجے میں کہہ رہی تھیں اور فیاض کے دل کے کسی گوشے میں جلتی اس کی محبت کی شمع پھڑپھڑانے لگی تھی۔

###

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کو وہاں رکھا ہوا اپنا روزمرہ کا سامان بے حد حقیر و بے حیثیت لگ رہا تھا۔

”بیڈ  وارڈ روب  رائٹنگ ٹیبل چیئر  ریشمی پردے  فرش پر بچھا کارپٹ جو اس کی پسند کے مطابق ہی فیض محمد لے کر آیا تھا  اس نے اپنی ایک بڑی کمیٹی اس کی پسند پر خرچ کر ڈالی تھی پورے گھر میں اس کا کمرہ خوبصورت تھا اور فاطمہ خود اپنے ہاتھوں سے اس کے کمرے کی صفائی کرتی تھیں۔
اب وہ بڑے نخوت بھرے انداز میں بیڈ پر بیٹھی تھی۔

”چند دن کی بات ہے صرف چند دن کی… میں ان سب ناپسندیدہ چہروں سے جان چھڑا لوں گی  آج میں ساحر سے میرج کرنے کے بعد کروڑ پتی بن گئی ہوں۔ بہت جلد میں ساحر کے ساتھ یہ سب چھوڑ کر چلی جاؤں گی پھر کبھی مڑ کر بھی نہیں دیکھوں گی اپنے بدصورت ماضی کو۔ اس گھر سے اور یہاں کے مکینوں سے میرا تعلق کبھی نہیں ہوگا۔
میں پاکستان سے جانے کے بعد واپس کبھی بھی نہیں آؤں گی۔“

گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں اس کی ماں اور ساس (چچی) بہت خوش و مطمئن تھیں ان سادہ لوح خواتین کو معلوم ہی نہ تھا کہ ان کے اعتبار و اعتماد کی دھجیاں کس بری طرح بکھیر دی گئی ہیں۔

گلفام گھر آیا تو اس کی طبیعت بہتر نہ تھی سانولے چہرے پر عجیب دلگرفتگی و سنجیدگی تھی اس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا تھا۔
ثریا پیچھے آئی تھیں۔

”گلفام! کیا ہوا ہے بیٹا! جتنی تیزی سے شادی کے دن قریب آ رہے ہیں  اتنے ہی تم نڈھال و پریشان سے نظر آنے لگے ہو  اب کھانے سے بھی انکار کر دیا ہے۔“ وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پریشانی سے استفسار کرنے لگیں۔

”پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے امی! میں ٹھیک ہوں۔“ وہ ان کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر گویا ہوا۔

”پھر کھانے سے کیوں انکار کیا ہے؟ اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ؟ ماں سے کوئی بات چھپائی نہیں جاتی۔


”تم سے کبھی کوئی بات نہیں چھپائی ہے امی!“

”کوئی بات تو ہے میرے بچے! جو تم کو بے چین کئے ہوئے ہے۔“ وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہہ رہی تھی۔

”آج کل میں خواب بہت دیکھ رہا ہوں امی! جہاں ہر سو دھواں ہی دھواں ہے  سیاہ دھواں جس میں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ روز میں یہی خواب دیکھ رہا ہوں اور میری طبیعت الجھنے لگی ہے پریشان ہو گیا ہوں میں۔
“ وہ بے حد پریشان لہجے میں بتا رہا تھا۔

”خواب کہاں سچے ہوتے ہیں میرے لال! تم سوچتے بہت زیادہ ہو  پریشان رہتے ہو۔ وہ ہی خواب میں تمہیں نظر آتا ہے۔“

”میں چاہتا ہوں امی! رخ کو شہزادیوں کی طرح رکھوں  میں اس کو اس گھر میں  اس محلے میں نہیں رکھنا چاہتا۔“ اس کا لہجہ ماہ رخ کی محبت میں شرابورتھا۔

”ہاں ہاں  ہم سب بھی یہی چاہتے ہیں تم فکر نہ کرو  ہم سب کی دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔

###

وہ کار سے اتر کر اندر آئی تو طغرل لان میں للی کے پھولوں کے قریب کھڑا کین پی رہا تھا  پری نے سر سے ڈھلکنے والے ریشمی آنچل کو سرعت سے درست کیا تھا اور تیز تیز چلتی ہوئی اس کے قریب سے گزرنا چاہتی تھی  جبھی وہ پکار اٹھا۔

”سارے دن کے بعد اب سامنا ہو رہا ہے  ہمارا  سلام دعا کے بغیر ہی تم آگے بڑھ رہی ہو؟ تم ابھی تک خفا ہو مجھ سے۔
“ میک اپ اور لائٹ جیولری میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی اس پر اس کا گھبرایا گھبرایا کترایا ساوہ انداز طغرل کو بے حد انوکھا و دلفریب لگ رہا تھا۔

”نہیں ایسی بات نہیں  میں بھلا کیوں خفا ہوں گی آپ سے۔ مجھے دیر ہو گئی ہے پہلے ہی دادی اماں پریشان ہو رہی ہوں گی میں جاتی ہوں۔“ وہ تیزی ے اندر کی جانب بڑھ گئی تھی اور طغرل کی نگاہوں نے اس کا وہاں تک پیچھا کیا  جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گئی تھی۔

بہت عجیب سے اس کے دل میں جذبات ابھرے تھے  ناموس اور انجانے احساسات کے نرغے میں پھنسا وہ خاصی دیر تک کھڑا سوچتا رہا  دل کی کیفیت کو محسوس کرتا رہا کچھ سمجھ نہ آیا تھا وہ کین کو ڈسٹ بن کی طرف اچھال کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔

ساری رات عجیب سی کشمکش میں گزری تھی

”پری اچھی لگی تھی؟“ اس نے خود سے پوچھا۔

”وہ پہلی لڑکی تو نہیں ہے جو تمہیں اچھی لگی  تمہاری تو پری سے بھی زیادہ حسین لڑکیوں سے دوستی رہی ہے اور تم ان کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہو  یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے؟“ اس کے اندر کسی نے تمسخرانہ انداز میں کہا تھا۔

”لیکن ایسے احساسات تو کبھی نہیں ہوئے تھے کہ اسے دیکھا تھا اور پھر دیکھتے رہنے کی خواہش ابھری تھی۔“ اس کی وہ ساری رات اور دوسرا تمام دن بھی اسی سوچ میں گزرا تھا۔

   1
0 Comments